تحریر: سید نجیب الحسن زیدی
زندگی سے جڑی تلخی اور شیرینی اور اسکے نشیب و فراز بسا اوقات انسان کو اسکی ذمہ داریوں سے غافل کرنے کا سبب بن جاتے ہیں اور کبھی انسان بیرونی مسائل میں اتنا الجھ کر رہ جاتا ہے کہ اپنے ہی گھر کے اندرونی مسائل کے بارے میں سوچنے تک کا موقع نہیں مل پاتا ۔کبھی وہ چیزیں جو رتبہ کے اعتبار سے بہت بعد میں قرار پانا چاہیے ان چیزوں کی جگہ لے لیتی ہیں جو سب سے مقدم ہیں مثلا شوہر داری اور گھر گرہستی بالکل آخر میں چلے جاتے ہیں اور خاندانی مسائل اور دوست واحباب سے مربوط مسائل یا تعلیم کا سلسلہ یاپھر نوکری وغیرہ جیسی چیزیں اولین ترجیحات میں آجاتی ہیں اور پھر ایسے مسائل جنم لیتے ہیں جن کی بنا پر نہ گھر کی زندگی میں سکون مل پاتا ہے اور نہ باہر کی زندگی ہی میں چین نصیب ہوتا ہے اور یہ جملے سننے کو ملتے ہیں کہ ہمارا بھی کوئی گھر ہے یہ تو جہنم ہے زندگی اجیرن بن کر رہ گئی ہے وغیرہ وغیرہ
جبکہ دین کی نظر میں پہلی ترجیح گھر کی تعمیر اور اس میں پر سکون ایسی فضا کو سازگار بنانا ہے جہاں انسان کو آرام مل سکے تاکہ وہ انسان اپنے پروردگار کی اطاعت و بندگی بہتر سے بہتر طور پر کر سکے اسی لئیے دینی تعلیمات میں شوہرکی اطاعت اور بچوں کی بہتر تربیت پر زور دیا گیا ہے اور ایک گھر میں تمام مسائل کا ذمہ دار شوہر کو قرار دیتے ہوئے اس کی رضا کے حصول کو جہاد و عبادت قرار دیا ہے ۔
باوجودیکہ کے گھر کے وہ مسائل جنکا تعلق ازدواجی زندگی سے نہیں ہے اور اسلام نے انہیں ایک عورت پر واجب قرار نہیں دیا ہے جیسے برتن مانجھنا کھانا بنانا کپڑے دھونا وغیرہ لیکن اگر کوئی از خود بڑھ کر یہ کام گھر گرہستی کو بہتر بنانے کے لئیے کرتا ہے تو دین اسے مستحسن نظروں سے دیکھتا ہے ۔جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی زندگی میں بھی نظر آتا ہے آپ نے کاموں کو بانٹ لیا تھا باہر کے کاموں کو امام علی ع انجام دیتے تو گھر کے امور کو آپ دیکھتی تھیں اس کے باوجود کے آپ وجہ تخلیق کائنات کی بیٹی تھیں یا خود وجہ تخلیق بھی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا لیکن آپ اپنے گھر میں ایک معمولی گھریلو خاتون کی طرح جو آپ سے ممکن ہوتا انجام دیتیں اور بسا اوقات تو گھر کے امور کی انجام دہی آپ پر شاق گزرتی لیکن پھر بھی گھر کے کاموں کو انجام دینے سے نہ رکتیں اتنا کام کرتیں اتنا کام کرتیں کہ ہاتھوں پر ورم آجاتا [1]آپکو اپنی شوہر رضایت کا اسقدر خیال رہتا کہ اگر کہیں خود ہی احتمال دیتیں کہ ممکن ہے میری کوئی بات شوہر کو بری لگی ہو تو خود ہی فرماتیں استغفر اللہ ولا اعوذ ابدا میں خدا کے حضور پناہ مانگتی ہوں اب اس بات کا اعادہ نہیں ہوگا [2]شوہر کی رضا کا اتنا خیال تھا کہ جب آپ نے اپنے عمر کے آخری لمحات میں خود کو ممنوع الملاقات کر دیا تھا اور کسی کو عیادت تک کے لئیے آنے کی اجازت نہیں دے رہی تھیں اس وقت امام علی علیہ السلام نے جب آپ سے درخواست کی کہ کچھ نمایاں لوگ آپ سے ملاقات کے لئیے آنا چاہتے ہیں تو آپ نے فرمایا: یا علی البیت بیتک والحرۃ زوجتک افعل ما تشاء [3]
علی! یہ گھر آپکا گھر ہے اور میں آپکی شریک حیات ہوں جو آپکو مناسب لگے وہ کریں اگر ہمارے معاشرہ میں بھی یہی مزاج فاطمی حاکم ہو جائے تو کیوں نہ انسان کی زندگی کامیاب ہوگی جہاں بہت سے مسائل اسی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں زوجہ چاہتی ہے اس کی بات مانی جائے اور شوہر اپنی بات منوانا چاہتا ہے نتیجہ میں ایسی کھینچا تانی کا ماحول بن جاتا ہے کہ گھر کے اندر سے آپسی مفاہمت و پیار محبت کی فضا کی جگہ انتقام و انا و خود محوری کی فضا لے لیتی ہے اور یوں اچھا خاصا گھر جہنم بن جاتا ہے اور پھر وہ مسائل پیش آتے ہیں سب تماشا دیکھتے ہیں
ہمارے لئیے اگر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی زندگی نمونہ عمل ہے تو زندگی کے ہر شعبہ میں نمونہ عمل ہونا چاہیے تاکہ اس کے فوائد سماج اور معاشرہ میں دیکھے جا سکیں حضرت زہرا سلام اللہ علیھا کی زندگی ہمیں بتاتی ہے کہ کس طرح زندگی کے ہر محاذ پر ایک مجاہدانہ زندگی گزاری جاتی ہے چاہے وہ گھر میں ہو یا گھر کے باہر دونوں ہی جگہ آپ نے اپنے شوہر کی مرضی سے ہٹ کرایک قدم نہیں بڑھایا اور دائرہ اطاعت شوہر میں رہتے ہوئے ایک ایسی زندگی کو محض اٹھارہ برس میں ہمارے لئیے چھوڑ دیا جو رہتنی دنیا تک اپنی روشنی سے عالم حیات میں اجالا کئیے رہے گی ۔
کیا یہ کوئی معمولی بات ہے کہ کوئی زوجہ گھر گرہستی کے امور بھی بحسن و خوبی انجام دے اور پوری مشترکہ زندگی میں شوہر کو ذرا سی شکایت کا موقع نہ دے ، شوہر کی مرضی کو سمجھنا اور اسکے مطابق عمل کرنا حیات فاطمی کا وہ رخ ہے جس پر اگر ہماری خواتین چلیں تو کبھی گھر میں نا اتفاقی نہیں پیدا ہو سکتی چنانچہ آ پ کو ہر وقت جس چیز کا خیال رہتا وہ یہ کہ علی ع کیا چاہتے ہیں علی ع کی رضا کیا ہے اور ایسا نہیں ہے کہ آپ کو شوہر کی رضا کا خیال رہتا بلکہ
امام علی علیہ السلام کو بھی آپکی رضا کا خیال رہتا اور اس بات کا دھیان رکھتے کہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کیا چاہتی ہیں یہ اور بات ہے کہ آپ نے کبھی اظہار نہ کیا کہ کیا چاہتی ہوں شاید یہی وجہ ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا تھا کہ علی کو تم نے کیسا پایا تو آپ نے فرمایا: اے بابا بہترین شریک حیات [4] اور ایک روایت میں ہے کہ جب حضور نے حضرت امیر المومنین اور جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے ایک دوسرے کے بارے میں سوال کیا کہ ایک دوسرے کو کیسا پایا تو دونوں ہی نے ایک دوسرے سے اپنی رضایت کا اظہار کرتے ہوئے تحسین و تمجید کی [5] عام حالات میں شوہر کی مرضی کا خیال رکھنا اور ہوتا ہے دشوار ترین مرحلہ میں شوہر کی اطاعت اور منزل ہے اور فاطمہ سلام اللہ علیہا نے سخت ترین گھڑی میں اپنے شوہر کی اطاعت کر کے بتایادیا کہ آپکو یوں ہی سیدۃ النساء العالمین نہیں کہا گیا ہے بلکہ آپکا کردار اتنا بلند ہے کہ اسکے یہ سب القاب اسکی عظمت کو کسی حد تک ہی بتا سکتے ہیں ورنہ تو خدا ہی جانتا ہے کہ فاطمہ شرف کی کن منزلوں پر ہیں ۔
وہ وقت کتنا سخت اور حساس تھا جب امام علی ع کو مسجد کی طرف گھسیٹ کر لے جا رہے تھے اور آپ بددعاء کے لئیے اپنے بابا کے مرقد پر آئیں لیکن جب علی ع نے یہ پیغام بھیجا کہ فاطمہ سے کہو بددعاء کے لئیے ہاتھ نہ اٹھائیں تو آپ نے فرمایا: خدا کی قسم میں اپنی جان کو آپکے لئیے سپر بنا لوں گی اور ہمیشہ آپکے ساتھ رہوں گی اگر کسی مصیبت و بلا میں گرفتار ہوئے تب بھی میں آپکا ساتھ نہ چھوڑوں گی اور جیسی آپکی مرضی ہوگی وہی کرونگی [6]
یہ ایام فاطمیہ جہاں بی بی دو عالم کی مصبیتوں کو یاد کرنے اور آپکے فراق میں غم منانے کے ہیں وہیں اس بات پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ آپکی عملی سیرت کیا تھی ؟ اس لئے کہ آج ہمارے روز بروز زوال پذیر معاشرہ کا علاج جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی با برکت زندگی کے ان نقوش میں ہے جن پر اگر ہم گامزن ہو جائیں تو ایک بہترین گھرتشکیل دے سکتے ہیں ، اور چند بہترین گھروں سے مل کر ہی ایک معاشرہ تیار ہوتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] نہج الحیاۃ ح ۹۲
[2] ایضا ح ۲۔ ۳
[3] ۔ شرح نھج البلاغہ ابن ابی الحدید، جلد ۳ ص ۲۵۷،لمراجعات ، ص ۳۰۳
[4] شرح نھج البلاغہ ابن ابی الحدید، جلد ۳ ص ۲۵۷المراجعات ص ۳۰۳
[5] ۔ قال: نعم العون على طاعة الله، وسأل فاطمة فقالت: خير بعل مناقب آل أبي طالب - ابن شهر آشوب - ج ٣ - الصفحة ١٣١
[6] ( کوکب الدری جلد ۱ ص ۱۹۶)